پیمرا اور صحافی

عمران طارق

بادی النظر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ صحافت کے تابوت میں پیمرا آخری کیل گاڑنے جارہا ہے، الیکٹرانک میڈیا مالکان سے ساز باز کے بعد ان کو رعایتیں دی جارہی ہیں اور دوسری جانب صحافیوں کے لئے خبر کے حوالے سے مشکلات کھڑی کی جارہی ہیں، ایک بار پھر نئے بل میں کوشش کی گئی ہے، اگرچہ صحافتی تنظیموں نے ترمیم کو مسترد کردیا ہے، لیکن کیا صرف مسترد کرنے سے یا ایک آدھے احتجاج سے صحافیوں کے مسائل ختم ہوجائیں گے؟ کیا ایک دو سیمینار کرنے سے پابندیاں ختم ہوجائیں گی؟ کیا کوئی تحریک چلے گی؟ یا نوے کی دہائی کا دور دوبارہ آگیا ہے؟ لیکن اب شاید وہ صحافی بھی نہیں رہے، صحافت کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے،
ایک بار پھر پیمرا بل کے ابتدائیے سمیت 9 سیکشنز میں ترمیم جبکہ 5 نئے سیکشنز کا اضافہ کیاگیا ہے، پیمرا قانون کے 2، 6، 8، 11، 13، 24، 26، 27، 29 کے سیکشنز میں ترامیم کی گئی ہیں بل میں 20، 20 اے،29 اے، 30 بی، 39 اے کی نئی شقوں کا اضافہ کیا گیا ہے بل کے ابتدائیے میں خبر کی جگہ مصدقہ خبر، تحمل وبرداشت، معاشی وتوانائی کی ترقی، بچوں سے متعلقہ مواد کے الفاظ شامل کئے گئے ہیں الیکڑانک میڈیا مصدقہ خبروں، معاشرے میں تحمل کے فروغ کا مواداپنی نشریات میں استعمال کرے گا، ڈس انفارمیشن کی تشریح بھی ترمیم کے ذریعے بل میں شامل کی گئی ہے "ڈس انفارمیشن” سے مراد وہ خبر ہے جو قابل تصدیق نہ ہو، گمراہ کن، من گھڑت، سازباز سے تیارکردہ یا جعلی ہو ایسی خبر "ڈس انفارمیشن” کہلائے گی جو کسی ذاتی، سیاسی یا مالی مفاد کی خاطر یا کسی کو ہراساں کرنے کے لئے دی گئی ہو، متعلقہ شخص کا موقف لئے بغیر دی گئی خبر "ڈس انفارمیشن” کی تعریف میں شامل ہوگی، متاثرہ شخص کا موقف بھی اسی نمایاں انداز میں نشر ہوگا یا کوریج دی جائے گی جس طور اس کے خلاف "ڈس انفارمیشن” کو دی گئی ہوگی، "مِس انفارمیشن” سے مراد وہ مواد ہے جو جانچ کے بعد جھوٹ ثابت ہو یا غلطی سے نشر ہوگیا ہو، آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی کے زمرے میں آنے والی خلاف ورزی اس بل کے تحت "سنگین خلاف ورزی” تصور ہوگی، پیمرا میں کسی بھی ریگولیٹر کے بجائے براہ راست مالکان اور سرمایہ کاروں سے رابطہ کیا جاتا ہے، پیمرا سٹیلائٹ چینلز کے قوانین میں تبدیلی کرتے ہوئے پروفیشنل افراد سے رابطے کو یقینی بنایا جائے نیوز چینلز میں کہنہ مشق صحافیوں کو ڈائریکٹر نیوز تعینات کرکے ان سے رابطہ کیا جائے جس طرح پرنٹ میڈیا میں ایڈیٹر کی پوسٹ کوختم یا بے جان کردیا گیا ہے، اسی طرح نیوز چینلز میں جان بوجھ کر ڈائریکٹر نیوز کا عہدہ مضبوط ہونے ہی نہیں دیا گیا اسٹیٹ بینک جس طرح بینک کے صدر اور چیف ایگزیکیٹو کے عہدے کا تحفظ کرتا ہے اور مالکان کسی بھی بینک صدر کو بہ یک جنبش قلم نوکری سے فارغ نہیں کرسکتے ہیں اسی طرح ڈائریکٹر نیوز کی ملازمت کو بھی تحفظ فراہم کیا جائے، پیمرا اس وقت وزارت اطلاعات ونشریات کے ماتحت کام کرتا ہے جبکہ جس وقت یہ ادارہ قائم کیا گیا تھا وہ اسٹبلشمنٹ ڈویڑن کے ماتحت تھا، پیمر ا کو بھی اس طرح صرف تیکنیکی معاملہ تک محدود کیا جائے، پیمرا اپنے تفویض کردہ اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے آزادی اظہار، آزادی صحافت پر قدغن کا باعث بن رہی ہے موجودہ حکومت صحافیوں کو ان کے جائز وقانونی حقوق دلوانے میں ناکام رہی ہے اور مالکان کے ساتھ گٹھ جوڑ کے ذریعے ملازمین کو بے روزگار کیا جارہا ہے اب تک ایک اندازے کے مطابق دس ہزار صحافی اور میڈیا ورکرز بے روزگار ہوچکے ہیں، اس کے علاوہ تنخواہوں میں غیرقانونی کٹوتی اور تنخواہوں میں کئی کئی ماہ تاخیر جیسے مسائل کا سامنا ہے، صوبہ سندھ کے مختلف اضلاع کے نمائندگان کو دیا جانے والا معاوضہ چینل اور اخباری مالکان نے بند کردیا ہے جس سے ان صحافیوں کی مالی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے، پیمرا نے اگرچہ تنخواہوں کے حوالے سے بل میں اچھی ترامیم پیش کی ہیں لیکن کیا میڈیا مالکان اس پر عمل پیرا ہونگے؟ کیا پیمرا اس پر سختی سے عمل درآمد کروائے گا؟ یا یہ صرف دکھاوے کے لئے شامل کئے گئے ہیں؟
سوال یہ ہے کہ ان ترامیم کے ذریعے مخالفین کی آواز کو دبایا جائے گا یا پھر مکمل آزادی اظہار کے خلاف استعمال کیا جائے گا، پیمرا تو ابھی تک الیکڑانک میڈیا کے لئے قوانین پر عمل درآمد کرانے میں ناکام ہے، گیٹ کیپر ہونا چاہیئے، لیکن جیلر نہیں، پابندیاں اور ضابطے ہونے چاہئیں، لیکن اعتدال کے ساتھ، جبر کے ساتھ کبھی کوئی تحریکی آواز دبائی نہیں جاسکی، حکومت، ریاست مسائل کے حل پر توجہ دے، سب ٹھیک ہوجائے گا؟ لیکن سب سے بڑا سوال صحافتی تنظیموں کے کردار کے حوالے سے ہے؟ کیا صحافتی تنظیمیں اس پر موثرکردار ادا کریں گی؟ یاوہ بھی قومی مفاد کے نام پر چپ سادھے رہیں گی، سوال صحافت بلکہ آزاد صحافت کے مستقبل کا ہے